بچوں سے متعلق آئین کے آرٹیکل 11 تین کی تشریح کی ضرورت ہے، مگر میں اب یہ تشریح کر نہیں سکتا، اب کیا کروں؛ اسلام آباد میں تقریب سے خطاب
اسلام آباد سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے آئینی بنچ میں نہ ہونے کا تذکرہ کرکے دلچسپ صورتحال پیدا کردی۔ تفصیلات کے مطابق فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں تقریب سے خطاب کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ہال میں موجود جسٹس جمال مندوخیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بچوں سے متعلق آئین کے آرٹیکل 11 تین کی تشریح کی ضرورت ہے، میں اب یہ تشریح کر نہیں سکتا آپ کر سکتے ہیں، آئی ایم سوری! مجھے یہ بار بار کہنا پڑ رہا ہے، مگر اب کیا کروں؟ میں یہ تشریح کر نہیں سکتا۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کے حقوق کا عدلیہ کو احساس ہے، بچے ناصرف ہمارا مستقبل ہیں، ہمارا حال بھی ہیں، بچے کل کے لوگ نہیں آج کے افراد ہیں، ججز کو بتانا چاہتا ہوں کہ بچوں کے لیے انصاف کس قدر اہم ہے، عدالت میں بچہ پیش ہوتا ہے تو ان کو بات کا موقع نہیں دیتے، ہم کیسز میں بچوں کے والدین کو سن لیتے ہیں، آئندہ بچہ عدالت میں پیش ہو تو اس کی بات سنیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مفاد عامہ کے مقدمات سے کافی بہتری آتی ہے، میں ہمیشہ کہتا ہوں عدالت آئیں، میں آئینی بینچ میں نہیں مگر میرے ساتھی آپ کو سنیں گے، عدلیہ کو بچوں کو بھی فیصلہ سازی کے عمل شامل کرنا چاہیے، عدلیہ کو بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے، ملک میں چلڈرن کورٹس بنانے کی ضرورت ہے، چلڈرن کورٹس میں بچوں سے متعلقہ کیسز کے جلد فیصلے ہوں، دیکھنا ہے ہمارا نظام انصاف بچوں کے لیے کیا کر رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو بھی آزادی رائے کا حق ہے، بچے ہمارے لیے ہم سے زیادہ اہم ہونے چاہئیں، ایسا نہیں ہونا چاہیئے بچہ عدالت آکر سارا دن بیٹھا رہے، بچے سے متعلق کیس کو فوری سنا جانا چاہیئے، بچوں کو آج مختلف خطرات کا سامنا ہے، ملک میں ڈھائی کروڑ سے زیادہ بچے سکول نہیں جا رہے، سپیشل چائلڈ سے متعلق ہمارے پاس سہولتیں موجود نہیں، بچیوں کو ونی کرنے جیسی رسومات آج تک موجود ہیں، جبری مذہب کی تبدیلی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، سکول میں بچوں کو مارنے پیٹنے کا رجحان آج بھی موجود ہے۔
متعلقہ خبریں